سلاطین غزنوی کا ہندوؤں کے ساتھ برتاؤ
محمد بن قاسم کے بعد محمود غزنوی
نے ہندوستان پر حکومت کی، لوگ اس کے متعدد حملوں کا ذکر خوب بڑھا چڑھا کر
اور مرچ مصالحہ لگاکر کرتے ہیں۔ مگر ان کے حملوں کے وجوہات کو یکسر
فراموش کردیتے ہیں یا جان بوجھ کر چھپادیتے ہیں۔
یہ میرا دعویٰ ہے کہ اگر راجہ جے پال اس کے والد سبکتگین
کو مجبور نہ کرتا کہ وہ ہندوستان پر حملہ آور ہوتو شاید اتنی جلدی
غزنوی خاندان ہندوستان کی طرف متوجہ ہوکر اسے غزنی سلطنت کا حصہ
نہ بناتے۔ باوجود اس کے وہ اپنے متعدد حملوں اور ہندوؤں کی طرف کی
جانے والے عہد وپیمان کی خلاف ورزی کے بعد بھی اس نے ہندوؤں
کے حقوق کو تسلیم کیا اور ہرجگہ اعلان معافی کے بعد غیرمسلموں
کو اپنی فوج میں بھرتی کیا اور انہیں اعلیٰ
عہدے پر فائز کیا۔ اور جس کے رہنے اور اس کی سہولت کے لیے
اس نے اپنی سلطنت کے قریب ایک مستقل بستی بسادی جس
میں وہ آزادانہ طریقے سے زندگی بسر کرتے تھے۔ ان دونوں
سپاہیوں اور قائدوں کی فوج میں ہندو اور مسلمان سپہ سالار اور
لشکر ہوتے تھے:
”کیوں کہ یہ
لڑائیاں خالص سیاسی نہ تھیں اور مذہبی یا قومی
نہ تھیں۔ اس لیے ایک طرف سرحدوں کے مسلمان راجہ جے پال کے
ساتھ ہوکر سلطان محمود کے خلاف لڑتے تھے تو دوسری طرف محمود کی ہندو
فوجیں راجاؤں کے خلاف لڑتی تھیں۔ چنانچہ شیخ حمید
راجہ جے پال کی فوج کا کمانڈر تھا، برخلاف اس کے کوٹ کی لڑائی میں
قلعہ بھیم کا ہندو راجہ محمود کے ساتھ تھا، اور اس لڑائی کے بعد دس
ہزار ہندو محمود کی فوج میں داخل ہوئے جن کا سپہ سالار سوبند رائے
تھا۔ اسی طرح تھانیسر کی لڑائی میں محمود کے
ساتھ بارہ ہزار ہندو تھے۔ جب قنوج، مہابن اور برن (بلندشہر) پر فوج کشی
ہوئی تو راجہ کشمیر برابر سلطان محمود کی رہبری کررہے
تھے۔ حتیٰ کہ سب سے زیادہ مشہور سومناتھ کی لڑائی
میں سمندر کی طرف سے جو حملہ کیاگیا اس میں
ہندوسپاہی کشتیوں پر سوار تھے اور یقینی بات یہ
ہے کہ اس زمانہ کے ہندو نہ کمزور تھے نہ بزدل اور نہ بے حمیت، جو اپنے مذہب
کے خلاف محمود کے ساتھ ہوجاتے؛ بلکہ جرأت، مردانگی اور فراخ دلی میں
ترک مسلمان کے جوڑ کے تھے۔“ (ہندومسلم ․․۱۸۷)
سلطان محمود کے بعد جب حکومت اس کی
اولاد میں منتقل ہوئی تو اس زمانے میں بھی بڑے عہدے دار
ہندو ہی تھے۔ جب سلطان مسعود کے نائب احمد نیالتگین نے
شرکشی کی تو تمام مسلمان درباریوں کو چھوڑ کر سلطان مسعود نے ایک
ہندو سردار تلک نامی کو متعین کیا جس نے احمد کو شکست دی۔
اسی سردار نے سلطان مسعود کی طرف سے راجہ ہانسی کے خلاف لڑکر
قلعہ ہانسی کو فتح کیا۔
غزنوی سلاطین کے بعد سلاطین
غوری کے زمانہ میں بھی غیرمسلموں کے حقوق اور ان کی
شرعی حیثیت کا پاس ولحاظ کیاگیا۔ اور حتیٰ
المقدور کوشش کی گئی کہ غیرمسلموں سے جنگ میں اور دوسرے
معاملات میں بھی شرع کی خلاف ورزی نہ کی جائے جس کی
واضح مثال یہ ہے کہ جب شہاب الدین غوری انہلواڑہ کی فتح میں
ناکام ہوکر غزنیں میں مقیم ہوا اور اپنی شکست کا انتقام لینے
کے لیے جنگی تیاریوں میں مصروف تھا تو کسی نے
عرضی لکھ کر بھیجی کہ انہلواڑہ میں ایک مشہور
سوداگر ہے، جس کا نام و سالہ ابہر ہے، وہ ہمیشہ لاکھوں کا مال تجارت کی
غرض سے ان علاقوں میں بھجوایاکرتا ہے۔ چنانچہ اس وقت بھی
اس کا دس لاکھ کے قریب کا مال غزنیں میں آیا پڑا
ہے۔ اگر بادشاہ سلامت چاہیں تو اس مال کو ضبط کرکے خزانہ میں
بھجوایا جاسکتا ہے، اس سے نہ صرف خزانہ معمور ہوگا بلکہ شاہی شان
وشوکت میں اضافہ ہوگا۔ سلطان نے عرضی کی پست پر لکھ کر
روانہ کردیا کہ وسالہ ابہر کا یہ مال اگر انہلواڑہ میں ہوتا اور
وہاں اس پر قبضہ کیاجاتا تو ہمارے لیے حلال ہوتا، لیکن غزنیں
میں اس مال پر قبضہ کرنا ہمارے لیے حرام ہے، کیونکہ وہ میری
پناہ میں ہے۔
عہد سلطنت میں غیرمسلموں کے حقوق
عہد سلطنت یا سلاطین دہلی
کے عہد کئی اعتبار سے ممتاز نظر آتا ہے کہ اس عہد میں ملک کی
تعمیر و ترقی اور مسلم حکومت کے استحکام و دوام کے ساتھ مختلف علوم و
فنون کی ترویج و اشاعت ہوئی اور جس میں علوم فقہیہ
کو عروج حاصل ہوا۔ اس عہد میں فقہا کی اتنی کثرت تھی
کہ ہر طرف فقہی مسائل کا چرچا اور غلغلہ تھا اور خود بادشاہ وقت کو علوم فقہیہ
سے کافی دلچسپی تھی۔ بالخصوص عہد فیروزشاہی
کے ممتاز فقہا میں شیخ اسحاق مغربی، شیخ حسین بن
احمد بخاری، شیخ عثمان چشتی اودھی، مولانا جمال الدین
دہلوی، شیخ حسن صنعانی، داؤد بن حسین شیرازی،
مولانا نجم الدین سمرقندی، شیخ حسین یوسف سمرقندی،
نجم الدین انتشار نیشاپوری وغیرہ ہیں۔ اس کے
عہد میں جو فقہی کتابیں معرض وجود میں آئیں ان میں
فتاویٰ تاتارخانیہ، فتاویٰ فیروز شاہی،
تحفة النصائح، طرفة الفقہاء، فوائد فیروزشاہی کے علاوہ اور بھی
دوسری کتابیں تحریر کی گئیں نیز درسیات
کی متعدد فقہی کتابوں کے شروح و حواشی زیور طبع سے آراستہ
ہوئیں۔ ان کتابوں میں غیرمسلموں کے ساتھ ذمیوں اور
حربیوں کے حقوق اور ان کے مسائل کو زیر بحث لاکر ہندوستانی
تناظر میں ان کی شرعی حیثیت متعین کی
گئی اور پھر اس پر عمل درآمد کیاگیا۔ بطور مثال اور نمونہ
کے یہاں صرف ایک استفتا نقل کیا جاتا ہے جس میں ذمیوں
کے مسائل اور ان کے حقوق کی وضاحت کی گئی ہے۔ جو فتاویٰ
فیروزشاہی میں ہے:
سوال: اگر کوئی
ذمی مسلمانوں کو سلام کرے تو کیا مسلمانوں کے لیے جائز ہے کہ وہ
وعلیک کہہ کر اس کا جواب دے؟
جواب: ایسا کہنے
میں کوئی حرج نہیں۔
سوال: اگر کوئی
ذمی مسلمانوں کو اپنے گھر مہمان کی حیثیت سے بلائے، جب کہ
دونوں کے مابین تجارتی تعلقات اور دوستی کے کچھ بھی تعلق
نہیں، تو کیا اس مسلمان کے لیے جائز ہے کہ وہ ذمی کے گھر
اس کا مہمان بن کر جائے؟
جواب: مہمان بن سکتا
ہے۔
سوال: کیا کوئی
ذمی بیمار پڑجائے تو کیا مسلمان کو اس کی عیادت کے
لیے جانا جائز ہوگا یا نہیں؟
جواب: جائز
ہوگا۔
سوال: مشرکوں اور ذمیوں
کے برتن میں کھانا پینا مکروہ ہے یا نہیں؟
جواب: مکروہ ہے۔
سوال : اگر کوئی
مسلمان ذمی فقیر کو صدقہ دیتا ہے تو شریعت کی رو سے
اس کا دینا جائز ہوگا کہ نہیں۔
جواب: جائز
ہوگا۔
سوال: اگر کفارہ میں
کسی ذمی کو کھانا دیا جائے تو یہ جائز ہوگا کہ نہیں؟
جواب : جائز
ہوگا۔
سوال: اگر کوئی
کافر خداتعالیٰ سے دعاء کرتا ہے تو کیا یہ کہنا جائز ہوگا
کہ اس کی دعا قبول ہو۔
جواب : جائز
ہوگا۔
اس استفتا سے اندازہ کیاجاسکتا ہے
کہ مسلمانوں نے ذمیوں کے حقوق کا کس حد تک اور کتنی کشادہ دلی
سے خیال رکھا اور اس کے لیے کتنی سہولتیں فراہم کیں۔
باوجود اس کے بعض معترضین یہ پروپیگنڈہ پھیلاکر ہندومسلم
تعلقات کو ناخوش گوار بنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ سلاطین دہلی
کے عہد میں غیرمسلموں کو دباکر رکھا گیا۔ انہیں
عہدے اور مناصب سے محروم کردیاگیا اور انہیں طرح طرح سے ستایاگیا
اور مندروں کو مسمار کیاگیا اور ہندوؤں کے مذہبی میلوں کو
بند کردیاگیا۔ ان تمام الزامات و اتہام اور غلط فہمی کو یہاں
دور کرنے کی گنجائش نہیں۔ البتہ چند غلط فہمیوں کو یہاں
دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
جہاں تک مذہبی میلوں پر
پابندی لگانے کی بات ہے، معلوم ہوناچاہیے کہ ان میلوں ٹھیلوں
میں عوام کے ازدہام کی وجہ سے بہت سی سماجی برائیوں
کو شہ مل رہی تھی، کیونکہ مردوزن کا اختلاط ہوتا تھا، جس کے نتیجے
میں اوباش قسم کے لوگ برائیوں اور سماجی برائیوں کے مرتکب
ہوتے تھے، چنانچہ سلطان وقت نے اس کے انشداد کے لیے ان میلوں کے
انعقاد پر پابندی عائد کی۔ نہ صرف غیرمسلموں کے میلوں
ٹھیلوں پر پابندی لگائی بلکہ مسلمانوں کے عرش کے موقعے پر
عورتوں کی حاضری کو بھی موقوف کردیا۔ اسی طرح
دہلی سے متصل ملوہ بستی میں ایک کنڈ تھا، جہاں ایک
مندر تعمیر کیا گیا، جہاں ہندوؤں کی ایک جماعت
مخصوص دنوں میں اپنے حواریوں کو ساتھ لے کر جمع ہوتے اور گھوڑے ساتھ
ہوتے جو ہتھیار وغیرہ سے لیس ہوتے تھے، اس موقعے پر عورتیں
اور بچے بھی بڑی تعداد میں وہاں اکٹھا ہوتے اور بت پرستی
کرتے، یہاں پر ایک میلہ کا سا سماں ہوتا۔ اس جم غفیر
کو دیکھ کر مسلمانوں کا ایک گروہ بھی یہاں پہنچتا۔
جس کی خبر سلطان کو ہوئی تو اس نے اس کے خلاف تادیبی
کارروائی کرائی اور سرغنہ لوگوں کا قتل کروایا۔
اسی طرح فیروزشاہ کے عہد میں
کچھ مندر مسمار کیے گئے جو ملکی مصالح اور عوام کی فلاح و بہبود
کے پیش نظر رکھ کر توڑا گیا، اس کے علاوہ اسلامی اصولوں کی
خلاف ورزی کرتے ہوئے کچھ علاقوں میں مندر توڑے گئے۔ جیسا
کہ عرض کیاجاچکا ہے کہ جو علاقے مسلمانوں کے آباد کردہ ہیں اور جہاں
مسلمان زیادہ تعداد میں ہیں وہاں ہندو کوئی نئے مندر کی
تعمیر نہیں کرسکتے۔ اس عہد میں جن مندروں کو توڑا گیا
وہ مسلمانوں کے علاقے میں تعمیر ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ کچھ مندر
جنگ کے موقعے پر توڑے گئے اورکچھ مندر اس لیے توڑے گئے کہ وہ بداخلاقی
اور منکرات کے اڈے بنے ہوئے تھے۔ جس کے متعلق ڈاکٹر ایشور ٹویا
لکھتے ہیں کہ: فیروز شاہ نے اسلامی قانون کے تحت اور دوسری
طرف پبلک کی بھلائی کے پیش نظر ان مندروں کو توڑا۔
سلطان محمد تغلق کے خلاف ایک ہندو
امیر نے عدالت میں دعویٰ کیا کہ سلطان نے اس کے
بھائی کو بلاسبب مارڈالا ہے۔ قاضی نے سلطان کو اپنی عدالت
میں طلب کیا، وہ بغیر کسی پندار کے قاضی کی
عدالت میں پہنچا، جاکر سلام کیا۔ قاضی کو پہلے سے کہلا بھیجا
تھا کہ وہ عدالت میں آئے تو اس کی تعظیم نہ کی
جائے۔ وہ قاضی کے سامنے ملزم کی حیثیت سے کھڑا
ہوا۔ قاضی نے حکم دیا کہ سلطان مدعی کو راضی کرے،
ورنہ قصاص کا حکم ہوگا۔ سلطان نے مدعی کو راضی کیا، تو اس
کی گلوخلاصی ہوئی۔ اس فیصلہ سے اندازہ لگانا چنداں
مشکل نہیں کہ مسلم فرمارواؤں نے سلطنت کے غیرمسلموں کو کتنی
آزادی اور مراعات دے رکھی تھی۔
$ $ $
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ5، جلد: 91 ، ربیع الثانی1428
ہجری مطابق مئی2007ء